صفحات

بدھ، 5 مارچ، 2014

ع ل م ۔ الْعَالَمِينَ


٭  العَٰلَمِینَ۔(73)(عنصر  ع ل م۔(854) (تمام کائنات ،  بشمول اللہ)




کائیناتِ ارض و السمٰوات  میں موجود ،   ہرہونی یا انہونی، مادی یا غیر مادی شئے، جو حاضر یا غائب ہے، خارجی عالم ہے اور، اندرونی عالم  وہ ہے۔ جو  خارجی عالم سے وجود میں آتا ہے ۔  ہر دو عالم ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔
 ہمارے حواسِ خمسہ (کان، آنکھ، ناک، زبان اورلمس) سے تمام معلومات، ارادی یا غیر ارادی ہمارے دماغ (Brain)میں خار جی عالم سے پہنچتی ہیں اور دماغ کے مختلف سیلز (ننھے ننھے خانے)   میں محفوظ ہو جاتی ہیں-
جہاں ذہن (Mind) اندرونی عالم کی معلومات میں، کیوں ، کیسے اور کس لئے ؟ کی بنیاد پر   اضعافہ کرتا رہتا ہے۔ جسے ہم انسانی  علم کہتے ہیں ۔ یہ علم ایک خود کار نظام کے ذریعے دماغ میں جمع ہوتا رہتا ہے۔جب ہم باغ میں جاتے ہیں، ہماری آنکھ(پکچر) ، کان (آڈیو)، ناک(بو)، زبان(ذائقہ) اور لمس(ٹچ) سے  اَن گنت  معلومات، ہمارے دماغ میں پہنچتی ہیں اور ذہن میں احساسات پیدا ہوتے ہیں-  اِن پانچوں حواسِ کے پانچ عالم ہیں، 
1- عالم ِ سماعت- خود کار ہے ہمارے کانوں میں آوازیں آتی رہتی ہیں ۔
2- عالم بو ۔یہ بھی خود کار ہے ۔ ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی بوُ ( خوش یا بد) ہماری ناک کے راستے ہمیں  احساس دلاتی ہے -
3- عالمِ مَس  -خود کار طریقے سے ،  ہمارے جسم سے مَس ہونے والی ہوا   او ہمارے جسم کو چھونے والے ہر شے ہمیں  محسوس ہوتی ہے ۔
4- عالمِ بصر- اِس کے لئے ہمیں  اپنے قوتِ ارادی سے کام لے کر  آنکھیں کھولنا یا  سر کو گھمانا پڑتا ہے ۔
5-عالمِ ذائقہ ۔ اِس کے لئے بھی ہمیں اپنی قوتِ ارادی سے  کسی بھی شئے کو زُبان  سےچکھنا پڑتا  ہے ۔
سب سے زیادہ اہمیت عالمِ بصر  کی ہے ، جس سے باقی چار عالم  کو ہمارا ذہن منسلک کرکے بصارت اور بصیرت  میں ڈھالتا ہے ۔ مکمل تفصیل سے ہمارے دماغ میں حفاظت سے  تحریر کر دیتا ہے ۔اور ایک عالم  بناتا ہے ۔
 ہمارے ہر  عالم   ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔گھر کے صحن کا الگ”عالم“ ہے اور گھر کے کمرے کا الگ۔ سوتے ہیں تو خواب کا الگ  عالم  ہے۔ 
یہ  عالم  زمان و مکان کی تبدیلی سے تبدیل ہوتے ہیں اور  ہمارے دماغ میں بھی وجود پاتے رہتے ہیں اور اِن سب کی ”معلومات“ ہمارے دماغ میں جمع ہوتی ہیں اور محفوظ ہوتی ہیں، دماغ یوں سمجھیں ہارڈ ڈسک ہے، ہم دماغ کا صرف تین سے پانچ فیصد حصہ استعمال کرتے ہیں۔ باقی پچانوے فیصد حصہ سٹور کا کام کرتا ہے، جس میں تمام پرانی خارجی معلومات ذخیرہ ہوتی رہتی ہیں ، جب آپ اپنے گھر سے نکلتے ہیں، تو حواسِ خمسہ کے ذریعے تمام معلومات آپ کے دماغ میں خود کار طریقے سے محفوظ ہوتی جاتی ہیں۔ چنانچہ ماں کے پیٹ میں دماغ میں پہنچنے والی پہلی معلومات سے لے کر  فوت ہونے تک تمام معلومات دماغ میں موجود ہوتی ہیں۔ جہاں سے تمام افعالی و عملی معلومات انسانی جلد کے خلیوں میں فوٹو کاپی ہوجاتی ہیں۔ 
جب ہم اِن ”عالمین“ میں موجود اشیاء پر غور کرتے ہیں تو مختلف چیزوں کا ادراک ہوتا ہے۔یہ ادراک۔ ہمارے دماغ میں فکر، عقل، تدبّر اور تجربے سے وجود پاتا ہے جسے ذہن (Mind)کہتے ہیں۔ذہن پیدا ہوتے ہی وجود پانے لگتا ہے اور نئی نئی اشیاء، اُن کے افعال ہمارے ذہن کو تبدیل کرتی رہتے ہیں۔بچپن سے بڑھاپے تک ہمارے ہر”عالم“ میں تبدیلی لازمی ہے۔تبدیلی رکنے کا عمل، جمود ہے اور بالآخر، رکاژیت (Fossilization) ہے۔  جیسے لکڑی کا  پتھر میں تبدیل ہو جانا ۔
ذہن کو تبدیل کرنے کے دو ذرائع ہیں، خارجی اور داخلی ۔ 
٭۔ خارجی ذرائع -  سے حواسِ خمسہ (کان، آنکھ، ناک، زبان اورلمس) سے ہمیں ملنے والی معلومات یا کسی دوسرے فرد سے حاصل ہونے والی معلومات۔ (Out of body Experiences)
 ٭۔ داخلی ذرائع -میں ہم حواسِ خمسہ (کان، آنکھ، ناک، زبان اورلمس) سے حاصل کردہ معلومات کو اپنی فکر، عقل، تدبّر اور تجربے سے ذہن کو (Internal body Experiences) کی مدد سے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
جیسے ہمیں گرنے سے چوٹ لگتی ہے، تو ہمارے ذہن میں موجود مدافعاتی اور عقلی نظام بیدار ہوجاتا ہے، جس میں کیوں؟ کیسے؟ اور کس لئے؟ جیسے سوالات پیدا ہوتے ہیں، اُن سے حاصل ہونے والے اجر (مثبت یا منفی) ، نتائج (مثبت یا منفی)، احتیاط (مثبت یا منفی)، تجربہ(مثبت یا منفی) اور بلآخر تدبّر (مثبت یا منفی)میں ڈھل کر ذہن میں ادراک بن جاتا ہے-کیوں کہ ہمارے دماغ میں فائدہ (خوشی) اور نقصان (غم) کے ، مختلف اوزان کی اقساط (میعار) جبلّت میں موجود ہیں۔
یاد رہے، ادراک ناقابلِ انتقال ہے -
یہ تمام علم حقیقت میں علم الافعال ہیں، ہمارے دماغ میں جاکر صفت (اسم)  بنتے ہیں اور ہم اُن کی صفات (اسماء)  کی بنیاد پر اِنہیں   اُسے صفت سے موصوف  کر دیتے ہیں  ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم الصفات (الاسماء )  سکھایا  اور یہی خوبی بنی آدم میں بھی موجود ہے  ۔جنہیں وہ اپنی زبان ( لسان)  میں ادا کرتا ہے ۔  
گویا کسی بھی فعل  پر مسلسل عمل کرنے والا  ، اُسی فعل کی صفت کا حامل کہلاتا ہے  اور اسمِ  بامسمیٰ ( حاملِ صفت ) بن جاتا ہے ۔
یہاں ایک چیز نوٹ کی جائے کہ، ضمیر یا حرف لگنے سے، ایک مادّے سے بننے والے الفاظ کے مفہوم تبدیل نہیں ہوتے۔ یہ بعینہی ایسا ہے کہ جیسے، آم کی جڑ سے نکلنے والے پودے پر آم ہی لگیں گے، کھجور یا شہتوت نہیں لگ سکتے!
 اگر اللہ کے لفظ کا اللہ کی آیت سے ہمیں اپنی زبان میں  فہم نہیں مل رہا تو اُسے اللہ کی عربی ہی میں رہنے دیں۔عجمی یا عربوں کی عر بی میں تبدیل نہ کریں۔ 
ہماری کوشش ہے کہ آپ کو  اُمّی فہم ہی ملے ۔   تاکہ خارجی ذرائع سے  آپ کو الکتاب کا علم آئے ۔  شکریہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ: ع َ لَ م َ ،عنصر  سے بننے والے 99  درج ذیل الفاظ ہم نے یہاں شامل نہیں کئے  ، اِنہیں سورۃ البقرہ  کی آیت  13 میں شام کیا جائے گا - 
جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے ۔

  جن الفاظ میں،”ع۔ل۔م“ شامل ہو گا۔ ان کا تعلق علم سے ہو گا۔  ہمارے حواسِ خمسہ (اِن پُٹ ڈیوائسز)سے  پہنچنے والی معلومات کا ہمارے دماغ میں ریکارڈ (تحریر) اور جب ہم کسی کو درس دیں گے تو وہی  معلومات ہمارے    بیان (آؤٹ  پُٹ ڈیوائسز)سے باہر نشر  ہوں گی -
آپ اللہ کے  اِن پر الفاظ  پر  اچھی طرح نظر ڈال لیں -اِن میں سے کئی آپ کے حافظے میں یقیناً ہوں گے -
عَ لَ مَ  :  الْعَالَمِينَ -  الْعَالِمُونَ -  لِّلْعَالَمِينَ
 عَلِمَ، عَلِمْتَ(عَلِمْتُ) ، عَلِمَتِ(عَلِمَتْ)، عَلِمْتُمُ، عَلِمْتُمُوْھُنَّ، عَلِمْتَہُ، عَلِمْنَا،عَلِمَہُ، عَلِمُوْا، تَعْلَمَ (تَعْلَمْ۔تَعْلَمُ)، لَتَعْلَمُنَّ، تَعْلَمُھَا۔ تَعْلَمُہُمْ، تَعْلَمُوْا، تَعْلَمُونَ، فَسَتَعْلَمُوْنَ، تَعْلَمُوْنَھُمْ، تَعْلَمُوھُمْ، نَعْلَمَ(نَعْلَمُ)، نَعْلَمُھُمْ، یَعْلَمُ (یَعْلَمِ۔یَعْلَمَ۔یَعْلمْ)، لَِیَعْلَمَ، سَیَعْلَمُ، لَیَعْلَمَنَّ، یَعْلَمُہُ، یَعْلَمہَا، یَعْلَمُھُمْ، یَعْلَمُوْا، یَعْلَمُوْنَ، سَیَعْلَمُوْنَ، أعْلَمْ، أَعْلَمُ، أَعْلَمَ ۔ أعْلَمُوْا،عَالَمَ (عَالَمِ، َ عَالَمُ)، الْعَالِمُوْنَ، عَالِمِیْنَ، عُلَمَاءُ، مَعْلُوْمٍ (مَعْلُوْمُٗ)،مَعْلُوْمَاتٍ (مَعْلُوْمَاتْٗ)، ،عَلِیْمُٗ(الْعَلِیْمُ)، عَلِیْمًا، عِلْمُ(الْعِلْمَ)،عِلْمًا، عِلْمِہِ، عِلْمُھَا، عِلْمُھُمْ، عِلْمِیْ،الأَعْلَامِ، عَلَامَاتٍ، عَلَّمَ، عَلَّمتُکَ، عَلَّمْتُمْ، عَلَّمْتَنَا، عَلَّمْتَنِیْ، عَلَّمَکَ، عَلَّمَکُمُ، عَلَّمنَاہُ، عَلَّمْنِیْ، عَلَّمَہُ، مُعَلَّمُٗ، تعَلَّمْنِ، تعَلَّمُوْنَ، تعَلَّمُوْنَہُنَّ، ولِنُعَلَّمَہُ، یُعَلَّمَانِ، یُعَلَّمُکَ، یُعَلَّمُکُمُ(یُعَلَّمُکُمْ)، یُعَلَّمُہُ، یُعَلَّمُھُمُ، یُعَلَّمُوْنَ، عُلَّمْتَ، عَُلَّمْتُمْ، عَُلَّمْنَا، یَتَعَلَّمُوْنَ

آپ اِن پر اچھی طرح نظر ڈال لیں -اِن میں سے کئی آپ کے حافظے میں یقیناً ہوں گے -
 اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کوبالا الفاظ میں   ضمیریں   بھی دکھائی دیں گی ۔ 






مثلاََ جیسے مندرجہ ذیل   الفاظ:۔ 
 مذکر: علمه - علمهما- علمهم- علمک ۔ علمکما ۔علمکم - علمی۔ علمنا 
مؤنث: علمھا- علمهما- علمهنّ- علمکِ ۔ علمکما ۔علمکنّ - علمی۔ علمنا   
 مثلاََ جیسے مندرجہ ذیل   الفاظ:۔ 

 یہ الفاظ ہم پڑھ چکے ہیں لہذا   پہلے  فہم بنانے والے وہ تمام الفاظ  یا آیت دھرائی نہیں جائے گی۔

٭ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلا لفظ جو اللہ تعالیٰ نے  مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ  کے ذریعے ہمیں عربی میں بتایا   وہ مَالِكِ  ہے ۔جو الکتاب میں اپنے مواضع میں درج ہے۔
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 اِن الفاظ پر کلک کریں آپ اُس پہلی  آیت پر چلے جائیں گے جس میں یہ درج ہیں -
 عوذ ۔  ب ۔  الله ۔  من ۔ شطن ۔ رجم ۔  
 

1 تبصرہ:

نوٹ: