صفحات

بدھ، 5 مارچ، 2014

س م و ۔ بِسْمِ

 الکتاب  ،  القرآن، الفرقان ،البرھان
  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم (1/1) 
٭۔ بِسْمِ ۔(3) .(مادہ۔س م و  ) (3) صفت-خصوصیت  -   Attribute 
 ہماری زمین  کے چاروں طرف تا حدِ نظر     نیلے رنگ کا آسمان پھیلا ہوا ہے - اُس کے بعد کے حصے کو خلاء کہا جاتا ہے ۔ جسے ہم کائینات    کہتے ہیں ۔   الکتاب میں اِنہیں السَّمَاءاورالسَّمَاوَات کی صفت دی  جاتی ہے ۔اِن کے  مادّہ بھی   س م وہی ہے ۔
 افعال کے اعتبار سے۔کسی بھی مادی یا غیر مادی (معلوم)شئے کی صفت کا پہلے تعین کیا جاتا ہے۔ پھر اس کی پہچان کے لئے اسے اسم (نام) دیا جاتا ہے، مختلف زبانوں میں اسی شئے کو مختلف اسم دیئے جاتے ہیں، مگر اس تبدیلی ء نام کے باوجود اس شئے کی صفت وہی رہتی ہے۔ گویا سب سے پہلے کسی بھی مادی یا غیر مادی شئے کی صفت کا تعین کیا جاتا ہے۔ پھر اس صفت کے مطابق اسے،اس صفاتی نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ 
مثلاً، مدد کرنا۔ فعل ہے۔ اب یہ فعل ایک صفت بھی ہے۔جس انسان میں بھی یہ صفت ہو گی وہ بلا تخصیص (رنگ، نسل (شعوب و قبائل)، زبان، مذہب اور جغرافیائی رہائش) دوسرے انسان کی مدد کرے گا۔ یہ مدد،زبانی یا عملی یا دونوں (جسمانی، مالی اور اخلاقی) میدان میں ہو گی۔ اسی صفت کے مطابق اسے موسوم کیا جائے گا (والدین کے رکھے ہوئے نام اس میں شامل نہیں)۔ اور یہ اس کی پہچان و خاصیت ہو گی۔ 
اسی طرح کتاب اللہ میں درج تمام اسم، صفاتی ہیں جو عمل،ردِعمل اور دیگر افعال کے مطابق موسوم کئے گئے ہیں۔

 اسی طرح جس صفت کی حامل شئے ہو تی ہے.
 اسے اسی مقصد کے لئے حاصل اور استعمال کیا جاتا ہے۔ دواء ایک صفت ہے۔ لیکن پیٹ کے درد کو ختم کرنے والی دوا کو، سر درد کے لئے نہ حاصل کیا جاتا ہے اور نہ ہی استعمال۔
٭۔س م و  ۔مادے سے بننے والے،   24 الفاظ  جو الکتاب میں  351 دفعہ  آئے ہیں۔


سَمّٰاکُمُ:صفات   بنیں ،تم مردوں کی ، سَمَّیتُمُوھَا:صفت بنائی ،تم مردوں نے، اس کی ، سَمَّیتُھَا: صفت  بنائی ،میں نے، اس کی، سَمُّوھُم: صفت بنائیں وہ  سب-
 الکتاب میں درج کروائے گئے ، اللہ کے الفاظ، ذہن نشین کرنے کے لئے،اُن کا فہم آپ کو دینا مقصد ہے۔ انسانی، فعل جب عمل سے گذرتے ہوئے تکمیل کو پہنچتا ہے تو وہ اُس فرد کا اسم (صفت) بن جاتا ہے۔اُسی اسم سے ہم ایسا ہی فعل، عملی طور پر مکمل کرنے والے سے موسوم کرتے ہیں - جیسے کھیل (فعل)،پر عمل کرنے والا (عامل، فاعل) کھلاڑی (اسم)کہلاتا ہے، لہذا ہر کھیل کھیلنے والا کھلاڑی (اسم صفت) ہوگا -
 ایک چیز ذہن نشین کر لیں کہ افعال کو مکمل عملی طور پر انجام دینے سے اسم وجود میں آتے ہیں -  ہر انسان اپنی پانچوں حسیات (دیکھنا، سننا، چکھنا، چھونا اور چکھنا) میں سے کسی کا یا سب کا استعمال کرتا ہے -اِس علم الاسماء کہتے ہیں -
وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (2:31)
اور آدَمَ کو   کل   علم الاسماء دیا  ، پھر الْمَلاَئِكَة پر عرض کیا ۔ اور بولا ،" اگر تم صادق ہو! تو    تمام
علم الاسماء کی نباء دو ؟"

الکتاب میں درج کروائے گئے ، اللہ کے الفاظ، ذہن نشین کرنے کے لئے،اُن کا فہم آپ کو دینا مقصد ہے۔ انسانی، فعل جب عمل سے گذرتے ہوئے تکمیل کو پہنچتا ہے تو وہ اُس فرد کا اسم (صفت) بن جاتا ہے۔اُسی اسم سے ہم ایسا ہی فعل، عملی طور پر مکمل کرنے والے سے موسوم کرتے ہیں - جیسے کھیل (فعل)،پر عمل کرنے والا (عامل، فاعل) کھلاڑی (اسم)کہلاتا ہے، لہذا ہر کھیل کھیلنے والا کھلاڑی (اسم صفت) ہوگا -
 ایک چیز ذہن نشین کر لیں کہ افعال کو مکمل عملی طور پر انجام دینے سے اسم وجود میں آتے ہیں -  ہر انسان اپنی پانچوں حسیات (دیکھنا، سننا، چکھنا، چھونا اور چکھنا) میں سے کسی کا یا سب کا استعمال کرتا ہے -اِس علم الاسماء کہتے ہیں -
وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (2:31)
 جیسے پہلی آیت میں رجم (دور کرنا) کا فہم دے کر، اُس سے بننے والے باقی الفاظ میں رجم ہی استعمال کیا۔ 
لیکن ضمائر اور حرف کا اردو ترجمہ ضرور کیا ہے۔اِس طرح آئیندہ بھی کیا جائے گا۔ کیوں کہ جو غلط مفہوم ہمارے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے یا ہوسکتا ہے کہ میرا فہم غلط ہو! 
ہر دو صورتوں میں اللہ کا لفظ، رجم ، اوّل ہے نہ کہ ترجمہ،یہاں بھی اِسم  کا فہم صفت لیا گیا ہے، ”نام“ نہیں۔ 
کیوں کہ آدم کو اللہ نے صفات سکھائیں نام نہیں!
 یاد رہے۔ کائینات کی ہر شئے فعل و عمل سے، صفت میں تبدیل ہوتی ہیں،لہذاصفت کی اہمیت ہے نام کی نہیں! 
حواسِ خمسہ سے ہمارے دماغ میں افعال (عملی حرکات)داخل ہوتی ہیں ہمارا ذہن اُسے جانچ کر صفت (الاِسمُ) دیتاہے تاکہ فہم میں حفظ ہوجائے۔ 
جیسے خشک یا تر، کڑوا یا میٹھا، تیز یا آہستہ، روشن یا تاریک، جیسے ہوا کا چلنا فعل ہے، ہم نے اُس کی رفتار کے باعث اسے مختلف صفات سے موسوم کر دیا -لیکن اگر وہ کسی ٹھنڈے علاقے سے گذرے  کر ہماری طرف آئے ، تو ٹھنڈی ہوا کہلاتی ہے-
 افعال کے اعتبار سے۔کسی بھی مادی یا غیر مادی (معلوم)شئے کی صفت کا پہلے تعین کیا جاتا ہے۔ پھر اس کی پہچان کے لئے اسے اسم دیا جاتا ہے، مختلف زبانوں میں اسی شئے کو مختلف اسم دیئے جاتے ہیں، مگر اس تبدیلیءِ  اِسم کے باوجود اس شئے کی صفت وہی رہتی ہے۔ 
گویا سب سے پہلے کسی بھی مادی یا غیر مادی شئے کی صفت کا تعین کیا جاتا ہے۔ پھر اس صفت کے مطابق اسے،اس صفاتی نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
 اللہ نے آدم کو یہی علم دیا تھا جو بنی آدم میں بھی چلا آرہا ہے۔
 مثلاً نَصْر، فعل (کام) ہے ۔جس انسان میں بھی یہ صفت ہو گی وہ بلا تخصیص (رنگ، نسل (شعوب و قبائل)، زبان، مذہب اور جغرافیائی رہائش) دوسرے انسان کی مدد کرے گا۔ یہ مدد،زبانی یا عملی یا دونوں (جسمانی، مالی اور اخلاقی) میدان میں ہو گی۔ اسی صفت کے مطابق اسے موسوم کیا جائے گا۔ اور یہ اس کی پہچان و خاصیت ہو گی۔ 
 اور فعل پر عمل کرنے والا نَاصِرٍ کہلائے گا، اگر فعل کرنے والے زیادہ ہیں تو أَنصَارٍکہلائیں گے۔ لیکن اگر اُس کام کے لئے خصوصی مہارت رکھتے ہیں تو َالأَنصَارٍکہلائیں گے۔
 صرف نَصْرکے بعد ،ہی ہم ایک شخص  کو   نَاصِرٍ یا    النَاصِر کی صفت دے سکتے ہیں ۔ اگر ایک آدمی نے فعل نہیں کیا تو وہ    نَاصِرٍنہیں کہلا سکتا،  اگر ہم ایک گروپ کو آفات میں  ہنگامی تربیت کرواتے ہیں تاکہ وہ  انسانوں  کی مدد کے لئے تیار کرتے ہیں تو وہ  نَصَارَی یا انصار  کہلائے  جائیں گے یعنی پریکٹیکل نہیں بلکہ تھیوری  کے  ماہر ہے-
جیسے فوجی جنہیں جنگ کے لئے تربیت دی جاتی ہے  ۔اگر جنگ میں وہ  قتل  ہو جائیں  تو وہ  لغوی معنوں میں شھید سے موسوم کئے جاتے ہیں ۔ لیکن اگر زندہ واپس آجائے توغازی کہلاتے ہیں ۔ لیکن  اگر وہ وہاں سے بھاگ آئیں تو وہ غازی کہلانے کے مستحق نہیں ۔
اِسی طرح   اگر ایک آدمی کا  نام اُس کے والدین  نے نَاصِر  رکھا ہے لیکن وہ کسی کی مدد نہیں کرتا۔ تو اِسمِ با مسمیٰ نہیں بلکہ سَمَّیتُمُوھَا میں آئے گا۔
اسی طرح  الکتاب  میں درج تمام الاسماء ، صفاتی ہیں جو عمل،ردِعمل اور دیگر افعال کے مطابق اللہ نے موسوم کئے ہیں۔ 
 
س م و بسم باسم بأسمائهم اسم الاسم
سميا سموهم سماكم الأسماء أسمائه أسماء
مسمى ليسمون تسمية تسمى سميتموها سميتها
السماء سماوات  
السماوات
(308)

س م و/ س م ا / س م ی کی بنیاد سے بننے والے تمام 20   الفاظ کا  فہم ایک ہو گا ۔ اُردو یا کسی زُبان میں  اِنہیں  نام  (اسم ) کا فہم دیں یا یہی عربی لفظ رہنے دیں۔
 یہ 20 الفاظ جب 308 مرتبہ، 450 آیات   کی   تلاوت میں ،آپ کی سماعت  سے آپ کے دماغ  میں جائیں گے تو ، آپ کے ذہن میں اِن  کا فہم بنتا جائے گا  اور  آپ کے لئے القرآن ، یَسَر  ہوتا رہے گا ۔ورنہ آپ لَغویاتی  عُسرَ کی دشوار گذار راہوں میں بھٹکتے پریں گے۔
ہر وہ شئے جو آپ کے حواسِ خمسہ سے آپ کے دماغ میں پہنچے گی ، آپ اُسے کوئی  فہم یا نام  دیں گے یا پہلے سے موجود فہم سے مل جائے گا ۔ اگر پہلے سے موجود فہم درست نہیں  تو نیا فہم کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ 
    بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سے مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ تک عربی کے الفاظ    کا  بنیادی فہم 100 فیصد درست ، آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا  ۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلا لفظ جو اللہ تعالیٰ نے  مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ  کے ذریعے ہمیں عربی میں بتایا ۔جو الکتاب میں اپنے مواضع میں درج ہے۔ جس پر جانے کے لئے، پہلے ہم الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ  پر کلک کریں   

 بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عوذ ۔  ب ۔  الله ۔  من ۔ شطن ۔ رجم ۔ 
 سمو ۔ رحم ۔

2 تبصرے:

  1. وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿٤١﴾
    [11:41]
    اس آیت میں بھی بِسْمِ اللَّهِ آیا ہے،

    وَقَالَ : اور اس نے کہا ارْكَبُوْا : سوار ہوجاؤ فِيْهَا : اس میں بِسْمِ اللّٰهِ :صفت اللہ مَجْــرٖ۩ىهَا : اس کا چلنا وَمُرْسٰىهَا : اور اس کا ٹھہرنا اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان

    شائد یہاں آپ کے بتائے ہوئے معنی فٹ نہیں ہو رہے ہیں۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. اور بولا ، اللَّهِ کے اسم کے ساتھ وہ سوار ہوجائیں اِس میں ، اُس کا مَجْرِ اور اُس کا مُرْسٰ !إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ [11:41]

    جواب دیںحذف کریں

نوٹ: