صفحات

بدھ، 5 مارچ، 2014

بِ - حرف جر


۔ باللّٰہ ِ۔دراصل یہ بِ+اللہ ہے ۔ بِ ۔حرف جرہے،سے اور ساتھ،کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
عربی ایک خالص زبان ہے۔ جس کا ہر لفظ ایک بنیادی مادہ (Root) سے بنا ہے۔ 
جس طرح درخت کے وجود کے لئے سب سے اہم حصہ اس کا بیج ہے ، جِس میں آپ کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ بیج جب نمو پانے کے طرف چلتا ہے تواس میں  سے سب سے پہلے  ۔  اُس بیج سے   اُس کی ”جڑ“ (Root)   نکلتی ہے ۔ پھر ننھا سا تنا اور پتے  -
  اس ”جڑ“ سے نکلنے والے تمام درخت اور اس پر اُگنے والے تمام پھل اس ”جڑ“ کے افعال رکھتے ہیں-
مثلاً ،  جب ہم ایک بیج کو زمین میں اُگاتے ہیں ،  تو اُس سے جو پودا پھوٹے گا،  تو ہم اُسے  اپنے فہم سے اگر ہمارے حواسِ خمسہ سے  پہنچنے والی معلومات سے ہمارے دماغ میں اُس کا ریکارڈ (تحریر) موجود ہے تو ہم فوراً   بتائیں گے ۔ آم کا پودا ، کھجور کا پودا وغیرہ وغیرہ ۔
 لیکن ہمیں اُس پودے کے متعلق کوئی علم نہیں تو وہ  ہمارے لئے زمین سے نکلنے والا  ایک پودا ہوگا ۔ جو ممکن ہے اپنے  فعل(Verb) کے مطابق ،وقت کے  تنے پر کھڑا ہو کر درخت  بنے ، جھاڑی بنے یا پھر بیل بنے ۔ درخت ، جھاڑی اور بیل یہ پودے کی پہچان  (Noun)    ہیں ۔  
 چنانچہ ہم کسی بھی  درخت ، جھاڑی اور بیل  کو اُس کے افعال  ( پتے ، تنے ، رنگت ، پھول اور پھل ) سے پہچانتے ہیں ۔  
٭-  آنکھوں سے، ملنے والی معلومات    -
٭-کان سے ،ملنے والی معلومات

٭- ناک سے، ملنے والی معلومات-
یہ وہ تین معلومات ہیں جو یک دم  دماغ (ھارڈ ڈسک) سے ذہن (میموری) میں آجاتی ہیں -
 اِن کی تصدیق ہو جانے کے بعد  مزید دو  اور ذرائع ہیں :
٭- چُھونے سے ۔ ملنے والی معلومات-
٭- زُبان سے چکھ  کر ، ملنے والی معلومات-
یہ پانچوں، ہمارے  دماغ کو ہمارے جسم سے باہرپھیلی ہوئی معلومات  ،    ہمارے حواسِ خمسہ کی قوتوں سے منتقل ہوتی ہیں ۔ اگر یہ  ہمارے دماغ میں  پہلے سے ریکارڈ ہیں ، تو ہمارا ذہن فوراً اِسے پہچان لے گا ، ورنہ  اِسے نامعلوم   لیبل دے کر دماغ ہی میں رہنے دے گا یا متشھابہ قرار دے دے گا ، کہ یہ شائد فلاں  چیز ہو سکتی ہے ۔یا معلوم نہیں ۔
 ایک بات یاد رہے ، کہ انسان  کائینات اور الارض  میں موجود کسی بھی شئے کو  حواسِ خمسہ سے قبول کرنے کے بعد  اُس  کے افعال  سے، اپنے  ذہن (میموری)  میں   اُس کی پہچان   بناتا ہے اور   دماغ (ھارڈ ڈسک) میں  تحریر (محفوظ) کر لیتا ہے ۔ یہ پہچان اُسے ایک صفت (Pronoun)      دیتی  ہے ۔   جو بعد میں"  کوڈ ورڈ "بن کر   اِسم ( Noun)     میں تبدیل ہوجاتا ہے -
گویا کائینات کی تمام اشیاء    فعل (عمل) سے صفت  بنیں اور پھر اِسم میں ڈھل گئیں ۔اب اسم ایک مختصر"  کوڈ ورڈ " ہے جس میں اُس کے تمام افعال موجود ہیں ۔
چنانچہ  بیج ، پتے ، تنے ، رنگت ، پھول اور پھل کے اعتبار سے  ، کتاب اللہ  (الارض و کائینات)   میں لاکھوں ایسی اشیاء ہیں  جنہیں ہم نے اُس کی صفات کی وجہ سے اسم دیئے ہیں ۔
 لہذا آم  یا کھجور کی کوئی بھی  قسم ہو، آم  یا کھجور ہی کہلائیں گے ۔
  انسانی دیئے گئے اسما کی بنیاد پر اُن کے تمام افعال و صفات،جنہیں ہم نے اپنی  پہچان  کی سہولت کے لئے ، الگ الگ" کوڈ ورڈ (اسم) "    دیئے  ہوئے ہیں ۔

 بالکل اسی طرح  "الکتاب"  کا ہر عربی لفظ اپنی ایک ”جڑ“ (Root)    رکھتا ہے جس سے اس  ں سے متعلق ، دوسرے الفاظ بنتے ہیں۔
 مثلا، ”ع۔ل۔م“ ایک ”جڑ“ (مادہ) ہے جس سے کئی الفاظ بنتے ہیں۔   چنانچہ جن الفاظ میں،”ع۔ل۔م“ شامل ہو گا۔ ان کا تعلق علم سے ہو گا ، بیان  سے نہیں  اور نہ ہی  لکھائی سے !۔ 
مثلاََ جیسے مندرجہ ذیل الفاظ:۔ 
علم۔معلم۔معلمہ۔علوم۔ معلوم۔  معلومات۔ علمی- علام ۔أعلام۔ علامت۔ علامات- علیم۔ تعلیم۔عالم۔ علماء۔  وغیرہ
 ان تمام الفاظ میں یہ ظاہر ہے کہ ان سب کا تعلق علم (جاننے) سے ہے۔ لہذا اپنی اس خصوصیت کے باعث عربی نہایت آسان زبان ہے، اور یہی دعویٰ اللہ کا بھی ہے ۔
  روح القدّس نے مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ کو اللہ کا ناقابلِ تبدیل حکم ، آيات الكتاب المبين میں بتایا : 
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ [54:17]
 اور حقیقت میں ہم نے الذکر کے لئے ، القرآن   کو آسان بناتے رہتے ہیں ہیں ۔ پس کوئی مدکّر   ہے ؟
(
مُدَّكِرٍ ، القرآن   کو  ،الذکر کے لئے آسان سمجھنے والا )

چنانچہ، اِس سبق  میں بھی ،  عربی زبان کی اسی خوبی کو، “الکتاب” سمجھنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔
جب  بھی  الکتاب کی قرءت  القرآن میں  ،”ع۔ل۔م“ مادے سے بننے والے الفاظ آپ کو سنائی دیں گے، آپ فوراً سمجھ جائیں گے کہ ان الفاظ  کا " اُمّی" (بنیادی) فہم      ، حواسِ خمسہ سے آپ کے دماغ میں جمع ہونے والی معلوما ت ہیں ۔
عربی زبان میں فعل کے ہر صیغے میں ایک ضمیر (وہ، اس، تو،تم،میں،ہم) ہوتی ہے۔مثلاً،
عَلَمَ کا فہم صرف ”جاننا“، نہیں بلکہ، ”اُس(مذکر) نے جانا“،
 اس طرح کَتَبَ کا فہم ، ”اُس (مذکر) نے لکھا“۔
 اَکتُبُ کے معنی ”میں لکھتا ہوں“۔
گویا عربی زبان کا ایک لفظ جملہ ہو تا ہے۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

اگلا لفظ جو اللہ تعالیٰ نے  مُحَمَّد رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ  کے ذریعے ہمیں عربی میں بتایا ۔وہ حروفِ      اللَّـهِ ہے ۔ جو الکتاب میں اپنے مواضع میں درج ہے۔ جس پر جانے کے لئے   اللَّـهِ پر کلک کریں:
 أَعُوذُ   بِاللَّـهِ   مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّ‌جِيمِ
٭٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭٭٭٭
 اِن الفاظ پر کلک کریں آپ اُس پہلی  آیت پر چلے جائیں گے جس میں یہ درج ہیں -
 عوذ ۔  ب ۔  الله ۔    -

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نوٹ: